ریکی (حصہ سوم)

 ریکی (حصہ سوم)

27 December 2022
کیا ریکی ایک فرضی سائنس ہے؟
محمد اویس پراچہ
==================
حضرت انسان کو زمین پر آئے لاکھوں نہیں تو ہزاروں سال تو بیت ہی چکے ہیں اور ماڈرن سائنس کی عمر یہی کوئی دو سو سال ہے۔ یہی دو سو سال انڈسٹریلائزیشن کے بھی ہیں تو یہ سائنس اس سے اور پیسے کے اثر سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔یہاں اب وہی مانا جاتا ہے جو بار بار کے تجارب سے ایک جیسا نظر آئے۔ جو کبھی ہو اور کبھی نہ ہو یا جو نظر ہی نہ آئےاسے سائنس مان نہیں سکتی۔ لیکن کیا انسان اس نو عمر علم سے پہلے دنیا میں نہیں رہتا تھا؟ بالکل رہتا تھا اور آج سے بہتر رہتا تھا۔ وہ ہماری والی بیماریوں میں کم مبتلا ہوتا تھا اور کم ہی مرتا تھا۔ چیچک اور طاعون جیسی وباؤں میں ہزاروں لوگ بے شک مرتے تھے لیکن وہ تو آج بھی کورونا اور اسپینش فلو میں بھی مرتے ہیں۔ پھر آخر اس انسان کا طرز تحقیق کیا تھا؟

reiki



انسان ہمیشہ سے چیزوں کے اسباب پر غور کرتا تھا، ان اسباب کو حل کرنے کی کوشش کرتا تھا اور ٹھیک ہو جاتا تھا۔ اگر ٹھیک نہ ہوتا تو دیکھتا کہ کیا اضافی وجہ پائی جاتی ہے؟ پھر اسے حل کرتا تھا۔ چنانچہ اگر جسم کی حرارت بڑھی ہوتی تھی تو ٹھنڈی چیزیں کھاتا تھا اور ٹھنڈ زیادہ ہوتی تھی تو حرارت پیدا کرتا تھا۔ خشکی ہوتی تو تری اور تری ہوتی تو خشکی پیدا کرتا تھا۔ اس سے اس کے جسم کا ماحول درست ہو جاتا تھا اور جسم اپنے امیون سسٹم سے کام لیتے ہوئے بیماری کو شکست دے دیتا تھا۔ یہ شفا دیر سے ملتی تھی لیکن دیرپا بھی ہوتی تھی۔ میڈیکل سائنس آئی تو اس نے بیکٹیریا اور وائرس دریافت کیے اور بیکٹیریا کو مارنے کے لیے دوائیں بھی بنا لیں۔ لیکن یہ گرمی سردی انہیں نظر نہیں آئی تو ان کی کھوپڑی میں بھی نہیں آ سکی۔ چنانچہ انہوں نے اینٹی بائیوٹک دواؤں سے بیکٹیریا مار کر کام چلانا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بیکٹیریا بھی اپنی قوت مدافعت بڑھاتے گئے۔ انہیں مارنے کے لیے اور فارمولے بنے اور یوں فارمولا جنریشن کا یہ کاروبار چل پڑا۔ اس دوران بھلے سے بندے کا بیڑہ غرق ہو جائے۔
ایلوپیتھک میڈیسن کی یہ ایک بدترین حقیقت ہے کہ اس میں فوری علاج تو ہو جاتا ہے لیکن عارضی۔ اس علاج کے بعد جسم مضبوط ہوا اور دوا کی سختی کے باوجود خود آئندہ مقابلہ کر سکا تو بندہ ٹھیک رہتا ہے ورنہ دوبارہ آستانہ عالیہ ڈاکٹر صاحب پر ہوتا ہے۔ کچھ وجہ یہ بھی ہے کہ بلین ڈالرز کے اس کاروبار میں مکمل شفا تو سراسر نقصان ہے۔ ہاں نتیجہ ہر بار نظر آتا ہے لہذا سائنس دان خوش ہیں۔جو کام انسان ہزاروں برس سے کرتا آ رہا تھا وہ سائنس دانوں کے نزدیک "سوڈو سائنس" یا فرضی نظام ہیں اور ان کی لسٹ بہت طویل ہے۔ ریکی بھی ایک "سوڈو سائنس" ہے یعنی ایک ایسا طریقہ علاج جس میں نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا ملنا ضروری نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ اس کے نتیجے کا اقرار کرنے والے بڑی تعداد میں ہیں تو اسے فرضی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ہونا یہ چاہیے کہ اگر نتیجہ نہ ملے تو وجہ تلاش کی جائے اور آئندہ کے لیے اس وجہ اور حل کو تحریر کر لیا جائے۔
ریکی انسانی جسم میں موجود انرجی یعنی توانائی کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ اب سے چند دہائیاں قبل تک سائنس دان اس بات سے واقف نہیں تھے کہ دنیا کی ہر چیز کے ایٹمز میں کچھ توانائی کے پارٹیکل بھی ہوتے ہیں جو انہیں جوڑے رکھتے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ پارٹیکل دریافت کیے اور یوں پارٹیکل فزکس کی ابتدا ہوئی۔ ظاہر ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے دریافت کرنے سے پہلے یہ توانائی موجود ہی نہیں تھی۔ یہ موجود تھی اور اپنا کام کر رہی تھی۔ ریکی کم سے کم اس پارٹیکل فزکس سے تو پہلےکی دریافت ہے اور مسمریزم وغیرہ تو بہت پہلے سے موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ ان ہی پارٹیکلز اور اسی انرجی کے ذریعے یہ کام کرتی ہو اور یہ بھی امکان ہے کہ یہ الگ سے کوئی توانائی ہو۔
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ (ریکی دریافت کرنے والے) ڈاکٹر میکاؤیوسوئی نے ریکی انیسویں صدی میں دریافت کی ہے جب کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس سے ڈیڑھ سو سال پہلے حجۃ اللہ البالغہ میں انسانی جسم کی ایک ایسی قوت کا ذکر کیا ہے جو جسم کو چلانے کا کام کرتی ہے اور اس سے روح کا تعلق ہوتا ہے۔ شاہ ولی اللہؒ کی اس عبارت کا ذکر ان شاء اللہ اگلے حصے میں کرتے ہیں۔
#ریکی_ہیلنگ
#متفرق_خیالات

Post a Comment

Previous Post Next Post