دیوالیہ ملک اور ہم

 


دیوالیہ ملک اور ہم


bankruptcy


محمد اویس پراچہ
=================
سونامی ایک طوفان ہے اور طوفان چاہے پانی کا ہو یا تبدیلی کا، لاتا وہ تباہی ہی ہے۔ چار سال قبل ایسا ہی ایک سونامی آیا تھا جو معیشت و اخلاقیات کو ایک ساتھ بہا کر لے گیا۔ اخلاقیات کو تو ایک طرف رکھیے، ہم معیشت پر بات کرتے ہیں۔ طوفان کی پہلی پہلی لہریں جب کراچی کے ساحل پر کھڑے تاجر سے ٹکرائی تھیں اور یہ مژدہ سنایا تھا کہ ہر لین دین پر شناختی کارڈ دکھانا ہوگا تو تاجر چونک گیا تھا۔ یہ پابندی بعد میں پچاس ہزار تک کر دی گئی لیکن تب تک تاجر ہوشیار ہو چکا تھا۔ پھر ڈالر ریٹ، زمین کے نئے ٹیکسز اور کنسٹرکشن پر پابندیوں جیسی چیزیں سامنے آئیں اور معیشت کا پہیہ الٹا چل پڑا۔ خیر! پالیسیوں کا یہ موضوع کسی اور وقت کے لیے، سر دست بات کرنی ہے دیوالیہ پن پر۔ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے؟
کوئی ملک دیوالیہ کب ہوتا ہے؟ جب اس کے قرضے اور ادائیگیاں اس کی آمدن سے بہت بڑھ جائیں اور مزید قرضوں کا امکان بھی نہ ہو۔ اس کی ایک مثال ہم نے گزشتہ دنوں سری لنکا کی دیکھی ہے۔ جب کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اس کا سب سے پہلا اثر اس کی امپورٹس پر پڑتا ہے۔ اگر ہم جیسا ملک ہو تو اس کو تیل نہیں ملتا اور جب تیل نہیں ملتا تو ملک بند ہو جاتا ہے۔ ملک میں بجلی عموماً تیل یا گیس سے بنتی ہے، جب یہ نہیں تو بجلی نہیں، بجلی نہیں تو ٹی وی، ریڈیو، موبائل سگنل، انٹرنیٹ، شہروں میں پانی، اور ملوں میں گندم بھی نہیں ہوتے۔ یوں سارا کاروبار زندگی ٹھپ ہو جاتا ہے۔
اب ذرا پاکستان کی جانب آئیے! پاکستان کی معاشی صورت حال اس وقت مختصراً یہ ہے: پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے قرض اٹھانوے بلین ڈالر تھا تو اب سوا سو بلین ہے۔ جی ڈی پی دو ہزار اٹھارہ میں 314 بلین تھی تو دو ہزار بیس، اکیس میں 263 بلین رہ گئی۔ جی ڈی پی ملک کی آمدن ہوتی ہے لہذا قرضوں کا حساب اس سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ریشو دو ہزار اٹھارہ میں 72 فیصد تھا تو اب 87 فیصد ہے یعنی قرض آمدن سے بہت زیادہ ہے۔ ملکی ڈالر ریزرو فروری میں بائیس بلین تھے اور خان صاحب کے جانے سے پہلے پہلے مارچ میں پانچ بلین خرچ ہو کر 17 بلین رہ گئے۔ سچویشن تو واقعی خراب ہے۔
لیکن دوسری جانب اگر گزشتہ مہینے میں ریزرو دیکھیں تو وہ زیادہ کم نہیں ہوئے، صرف ایک بلین کا فرق آیا ہے۔ ہمارے پاس جو کارڈز کھیلنے کے ہیں ان میں سب سے پہلا پیٹرول، بجلی اور دیگر چیزوں کا ریٹ بڑھانا ہے۔ ویسے بھی مفتاح اسماعيل کے بقول خان صاحب آئی ایم ایف سے اس کا تحریری ایگریمنٹ کر کے جا چکے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بھلا ہم کب تک ٹکیں گے؟ دوسری چیز اپنے اثاثوں کو گروی رکھنا ہے جو بہت سارے پہلے ہی گروی رکھے جا چکے ہیں۔ ان کے عوض قرض لیا جاتا ہے۔ تیسری چیز اپنی بندرگاہیں، ریلوے یا بلوچستان کی کانیں ننانوے سال کی لیز پر دوسروں کو دینا ہے اور چین یقیناً گوادر بخوشی لینے کو تیار ہوگا۔ اس کا نتیجہ کتنا بھیانک ہوگا؟ یہ تصور بھی مشکل ہے۔ ہاں وقتی طور پر ہم دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچ جائیں گے۔ چوتھی چیز اپنے سفید ہاتھی اداروں کی نجکاری کرنا ہے۔ ساتھ بعض نفع بخش ادارے بھی دینے پڑیں گے۔
کارڈز تو بہت ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کیا اس بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ پھر ہم سدھر جائیں گے؟ ہماری اشرافیہ اور حکومت کے اخراجات کم ہو جائیں گے؟ ہمارے یہاں سونامی نہیں آیا کریں گے؟ ہماری عدالتیں چڑھتی معیشت کو نا اہلی کے نام پر تباہ نہیں کیا کریں گی؟ اسٹیبلشمنٹ نا اہلوں کو مسلط نہیں کیا کرے گی؟ گورنمنٹس تاجر کو حقیقی فائدہ دینے کا سوچا کریں گی؟ ملک کی ویران زمینوں کو سوسائیٹیوں کے بجائے زراعت اور انڈسٹری سے آباد کیا جائے گا؟ انڈسٹری کو ڈنڈا اور کھلونا ایک ساتھ دے کر درست ٹریک پر ڈالا جائے گا؟ ہمارے یہاں بجلی گرین بنا کرے گی اور گاڑیاں ملک میں ماحول دوست بنا کریں گی؟ کوئی گارنٹی ہے؟
ایسی صورت حال میں ہم عوام کو کچھ عرصے بعد پھر مصائب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے حل انفرادی سطح پر مجھے یہ سمجھ میں آتے ہیں:
اپنے لیے سولر اور بورنگ کا انتظام کریں۔ کم سے کم پانی اور بجلی اپنی ہو۔
اپنے اخراجات کو کم کر کے زیادہ سے زیادہ بچت کریں۔ اور یہ بچت سونے یا ایسی چیز میں رکھیں جو روپے کے مقابلے میں مستحکم ہو۔ میں کرپٹو کا مشورہ نہیں دیتا لیکن اگر قانون اجازت دے تو یہ بھی اچھی چوائس ہے۔ خصوصاً ان کے لیے جو ملک سے باہر جانا چاہتے ہوں۔
اگر ممکن ہو تو اپنی گندم اور سبزی کا بندوبست کریں۔ خراب حالات میں کھانے لالے نہ پڑیں۔
اور آخر میں گھر کی حفاظت کے لیے اسلحہ لے کر سب گھر والوں کو چلانا سکھا دیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو وقت پڑنے پر کسی بھی درجے کی لوٹ مار کر سکتے ہیں۔
باقی اللہ مالک ہے!

Post a Comment

Previous Post Next Post